ہمیں کافر ثابت کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں کہ صاحب دیکھیئے شیعہ کافر ہیں، صحابہ کی اہانت کرتے ہیں، کتابوں سے مدد لی گئی کہ دیکھیئے یہ کتاب، وہ کتاب، فلاں کتاب. مگر اہل سنت عوام پر کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا، تب تکفیریوں کے ماسٹر مائنڈز نے اپنے کارندوں سے کہا کہ "ارے عقل کے اندھوں! کتابیں وتابیں عوام تھوڑا ہی پڑھتی ہے! کچھ ایسا کرو کہ سنّی معاشرے کے عام فرد پر بھی یہ عیاں ہو جائے کہ شیعہ صحابہ کرام کی اہانت کرتے ہیں." لہٰذا تکفیریوں کے ایجنٹ پیشہ ور مولوی، خطیب و ذاکر شیعہ کے لبادے میں میدان میں لائے گئے انہوں نے سر عام خلفاء کی اہانت کرنا شروع کی. مجالس سید الشہداء میں تو اہل سنت ویسے بھی شیعوں کے ساتھ شرکت کرتے تھے لہٰذا تفرقہ آمیز مجالس سے ان تک پیغام پہنچ گیا کہ شیعہ واقعی صحابہ کی اہانت کرتے ہیں. اِدھر سے پیشہ ور مولویوں، ذاکروں و خطیبوں نے اہانت شروع کی تو اُدھر سے تکفیری مُلا میدان میں آکر چیخنا شروع ہو گئے اور عام سنّی سے کہنے لگے "دیکھ لیا! کہا تھا نہ شیعہ اہانت کرتے ہیں، اب تو اپنی کانوں سے سن چکے، ہو گئی تسلی؟ کیا اب بھی انہیں مسلمان کہو گے... غیرت نہیں آتی شیعہ مجلسوں میں جا کر خلفائے راشدین کی اہانت سنتے ہو...". دشمن کا پہلا تیر نشانے پہ لگا سنی-شیعہ مشترک مجالس عزاء ختم ہونے لگیں، اہل سنت ہماری مجالس سے کنارہ کش ہونے لگے.
Momino Haider e Karrar ka matam kar lo Nadeem Sarwar Noha Lyrics
دوسرا تیر! پیشہ ور مولویوں، ذاکروں و خطیبوں کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ اب کچھ ایسا کرو کہ شیعہ سے "اسلامی تشخص" ہی چھین لو. ایسا کرو کہ یہ لوگ روز مرہ کی زندگی میں میل جول کے لحاظ سے بھی باقی مسلمانوں سے الگ تھلگ نظر آئیں. لہٰذا پیشہ ور خطیب و ذاکر اس ٹاسک کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کہنے لگے کہ "سلام علیکم کی جگہ یا علی مدد" کہنا ہے، کیونکہ حدیث ہے کہ یاعلی مدد مومن و منافق کی پہچان کا طریقہ ہے. سلام پہ حملہ! دیکھئے کتنا بنیادی حملہ کیا ہے دشمن نے، دشمن جانتا ہے کہ جب بھی شیعہ سنّی ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں، استقبال کا طریقہ مشترک ہے. ملاقات کا پہلا جز سلام ہے. لہٰذا ملاقات کے اسی پہلے موقع پر ہی کچھ ایسا کرو کہ یہ دو مسلمان ایک دوسرے سے ملیں تو ایک جیسے نہیں بلکہ بلکل الگ نظر آئیں. بنیاد کو نشانہ بنایا گیا تاکہ سنّی عوام میں یہ تاثر پیدا ہو کہ شیعہ تو کچھ الگ ہی مذہب کے لوگ ہیں، سلام کی بجائے یاعلی مدد کرتے ہیں. اب عام شیعہ بیچارہ قرآن سے تو اتنی رغبت رکھتا نہیں کہ قرآن میں دیکھے کہ لکھا ہے:
وَإِذَا جَاۤءَكَ ٱلَّذِینَ یُؤۡمِنُونَ بِـَٔایَـٰتِنَا فَقُلۡ سَلَـٰمٌ عَلَیۡكُمۡۖ
"اور جب ہماری آیات پر ایمان لانے والے تمہارے پاس آئیں تو تم کہو سلام علیکم" (انعام آیت ۵۴)
Haye Alamdar Haye Alamdar Lyrics Complete Noha
مسلمانوں کے ساتھ شیعہ کا دوسرا مشترک جز "سلام علیکم" بھی ہاتھ سے جانے لگا، البتہ دشمن کا یہ دوسرا تیر پورے کا پورا نشانے پہ نہ لگ سکا کیونکہ باشعور شیعہ علماء نے "سلام علیکم یاعلی مدد" کا رواج ڈال کر دشمن کی سازش کو کسی حد تک ناکام بنا دیا.
تیسرا تیر! تیسری چیز جو مشترک ہے وہ ہیں دو عیدیں! عیدالفطر اور عید الاضحیٰ. سارے مسلمان مل کر مشترکہ طور پر یہ عیدیں مناتے ہیں. دشمن نے اپنے کارندوں کو ٹاسک دیا کہ اس اجتماعی مشترک عامل پہ کاری ضرب لگائیں، یہاں بھی ایسا کچھ کریں کہ شیعہ باقی مسلمانوں سے الگ نظر آئے لہٰذا دشمن کے کارندے شروع ہوگئے کہ "صاحب ہمیں تو عزاداری کرنی ہے عید کاہے کی، عید نہیں کرنی." بھرحال اس ٹاسک کے مدنظر زنجیر زن میدان میں آگئے، ماتمی سنگتوں کے پملفلیٹس سوشل میڈیا پہ گردش کرنے لگے کہ عید نہیں بس ماتم. حیران کن بات یہ ہے کہ اس عزاداری کا وقت بھی بعض امام بارگاہوں میں صبح سات آٹھ بجے سے رکھا گیا. کمال! دیکھیئے کتنا پکا نشانہ لیا! کیونکہ جانتے ہیں کہ اس وقت سارے مسلمان عید نماز ادا کرتے ہیں. جب تمام مسلمان مساجد ذکر خدا و مبارک مبارک کی صداؤں سے گونج رہی ہوں، اس وقت شیعہ امام بارگاہوں سے ماتم کی صدا و زنجیر کی کھنکھناہٹ سنائی دے رہی ہو. سنّی اپنی مسجد سے نئے معطر لباس میں نکلے اور شیعہ خون سے لت پت کالے لباس میں! تاکہ کل تک جو سنی اور شیعہ نماز پڑھ کر مساجد سے نکلتے تھے اور راہ چلتے ایک دوسرے سے گلے ملتے تھے، عید مبارک کہتے تھے اور عام سنّی کو یہ احساس ہوتا تھا کہ یہ بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں، اب ایک دوسرے کو دور سے سلام بھی نہ کریں اور عام سنّی کہے کہ شیعوں کا اسلامی عیدوں سے کوئی تعلق نہیں!
البتہ بفضل خدا دشمن کا یہ تیر اتنا اثر انداز نہ ہوا. شیعہ نے حسب معمول عیدین کے خطبات میں امام حسین (ع) و شہدائے کربلا کا ذکر بھی کیا، دو رکعت زیارت امام حسین (ع) بھی ادا کی، آنکھیں نم بھی کیں اور عید بھی منائی.
چوتھا تیر! جمعہ نماز پہ حملہ! کیونکہ یہ بھی سنی شیعہ کا مشترکہ عبادی عمل ہوتا ہے کہا گیا کہ جمعہ تو بس معصوم کے ہی دور میں ہوتا ہے! جب کہ حقیقت یہ ہے کہ علماء تشیع کے مابین اصل بحث یہ ہے کہ آیا غیبت امام معصوم میں جمعہ "واجب" کی نیت سے پڑھا جا سکتا ہے یا نہیں. اس واجب پڑھنا ہے یا نہیں پڑھنا کو شاطرانہ انداز سے یہ رنگ دیا گیا کہ "جمعہ پڑھ ہی نہیں سکتے" جب کہ قرآن کہتا ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَوٰةِ مِن يَوۡمِ ٱلۡجُمُعَةِ فَٱسۡعَوۡاْ إِلَىٰ ذِكۡرِ ٱللَّهِ وَذَرُواْ ٱلۡبَيۡعَۚ ذَٰلِكُمۡ خَيۡرٞ لَّكُمۡ إِن كُنتُمۡ تَعۡلَمُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو (سورہ جمعہ آیت ۹)
Mera Dil Bhi Chamka Dy Chamkany Waly Naat Lyrics
جمعہ کے دن نماز جمعہ کی طرف دوڑو! چھوڑ دو کام کاج اپنا، چھوڑو خرید و فروخت، دوڑو نماز جمعہ کیلئے! کون ہے جو حدیث کی مدد سے قرآن کا انکار کرے جب کہ اتنی تاکید ہو کہ کہا جائے دوڑ پڑو. لہذا اللہ (ج) کے فضل سے جمعہ نماز پہ حملہ بھی ناکام گیا اور اس عظیم اجتماعی عبادت سے مساجد اپنی شان و شوکت کے ساتھ آباد ہیں.
اس کے علاوہ نماز کی اہانت، مساجد کی اہانت، قرآن کی اہانت... حتی کہ اللہ جل جلالہ کی اہانت کہ گھوڑے نے پاکستان دیا اللہ (ج) نے نہیں وغیرہ وغیرہ! لیکن ہم نے کبھی یہ نہ سوچا کہ یہ ہو کیا رہا ہے. ہمیں محبت اہل بیت (ع) کی نقلی پیکنگ میں یزیدیت دی جاتی رہی ہم گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگاتے رہے...
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری مسلمانوں کے ساتھ مشترکات کو مٹانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ جواب بہت سادہ سا ہے! اس لیئے کہ تکفیری لابی یہ چاہتی ہے کہ شیعہ کی عبادات، میل جول و رسومات وغیرہ کو الگ کرکے انہیں مسلمانوں سے جدا کیا جائے تاکہ ان کو کافر ثابت کرنے میں آسانی ہو، پروپگینڈہ کیا جائے کہ صاحب دیکھیئے ان کی نماز الگ، سلام الگ، عیدیں الگ، جمعہ نہیں پڑھتے وغیرہ تاکہ سنّی صدیق پان والا، شکور برگر والا، فاروق کریانے والا بھی یہ سوچے کہ تکفیری مولوی صاحب کی بات درست ہے شیعہ واقعی مسلمان نہیں...! انگریزی میں اسے کہتے ہیں "گراس روٹ لیول" پہ کام کرنا. جڑ پہ کام کرنا. جب عوام نے یہ سوچ لیا کہ شیعہ مسلمان نہیں تو کل انہیں مارا جائے، قتل کیا جائے تو کوئی سنّی کھڑا ہو کر یہ نہ کہنے پائے کہ مسلمان کو مارا گیا. یہ وہی اموی و یزیدی منصوبہ ہے کہ پہلے حسین (ع) کو باغی ثابت کرو، پھر اسے آسانی سے قتل کر دو، تاکہ مسلمان دنیا کے کسی کونے سے چوں تک نہ ہو. یہ ہی وجہ ہے کہ جب اسیران کربلاء کو شام لایا گیا تو شامی یہ سمجھ رہے تھے کہ ایک باغی لشکر کے اسیر شام میں داخل ہو رہے ہیں!
یہ تحریر آج کے اخبار نوائے وقت کی ہے اور لکھنے والا بھی سنی ہے
0 comments:
Post a Comment